دہشتگردوں کے مقاصد کچھ اور ہیں جبکہ نشانہ معصوم افراد کو بنایا جارہا ہے، چوہدری نثار

اسلام آباد( وائس آف ورلڈ نیوز) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث افراد کے مقاصد کچھ اور
ہیں اور نشانہ
معصوم افراد بن رہے ہیں، سانحہ پشاور کی ذمہ داری ایک گروہ نے قبول کی ہے لیکن وہ مشکوک ہے کیونکہ یہ گروپ ملک میں فعال نہیں۔
قومی اسمبلی میں سانحہ پشاور کے بارے ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ آل سینٹس چرچ کی سیکیورٹی کے لئے مقامی افراد کے علاوہ ایف سی اور پولیس کے دو دو اہلکار موجود تھے، کوہاٹی گیٹ میں گرجا گھر پر حملے کے لئے 2 خودکش وہاں پہنچے تھے پہلے بمبار نے لوگوں کے باہر جانے والے راستے پر خود کو اڑایا جس کے فوری بعد دوسرے دروازے سے ایک اور حملہ آور داخل ہوا اور اس نے اپنے آپ کو ہجوم میں اڑا دیا، دھماکے میں اب تک 80 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 137 افراد زخمی ہوئے۔ جن میں سے کئی افراد کی حالت انتہائی نازک ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد عوام میں بہت اشتعال تھا اس موقع پرمسیحی برادری کے رہنماؤں نے  صبر کا درس دیا جو قابل تحسین ہے۔ ان کا صبر، کردار اور درس ہر پاکستانی کے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کے بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ہزاروں لوگ جمع ہوگئے ، اکثر تو اپنے پیاروں کی تلاش میں آئے تھے جبکہ کچھ لوگ ہمدردی اور اس انسانیت سوز واقعے پر اظہار یکجہتی کے لئے آئے تھے، اس قدر دھکم پیل میں بھی لیڈی ریڈنگ اسپتال کے عملے نے اپنی بھرپور خدمات سرانجام دیں، ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اندوہناک واقعات میں یہی لوگ ہیرو بن کر ابھرتے ہیں ، وہ ثابت کرتے ہیں کہ مشکل وقت میں بھی پاکستانی قوم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ  سانحہ پشاور کو کسی انسانی فعل سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا،یہ سانحہ اقلیتوں کے ساتھ نہیں پوری قوم کے ساتھ پیش آیا، جس بےدرری سے مسیحی برادری کو نشانہ بنایا گیا اس کے لئے ان کے پاس الفاظ نہیں، روایتی مذمت سانحہ پشاور پر لاگو نہیں ہوتی، لیکن ہمیں مذمت بھی کرنی ہے اور صبر کا دامن بھی نہیں چھوڑنا، وفاقی حکومت زخمیوں کے علاج معالجے اور جاں بحق افراد کے لواحقین کی بحالی کے لئے خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی ، ملک بھر میں اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی اور ان کے مسائل کے حل کے لئے قومی سطح پر لائحہ عمل بنایا جائے گا، اس سلسلے میں وفاقی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو عبادت گاہوں کی سیکیورٹی کے معاملات کو دیکھے گی۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وہ وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے ملک کے کسی بھی  حصے میں جاتے ہیں تو وہاں سیاسی اختلاف کے باوجود ملکی مسائل پر ہم سیاست کے بجائے پاکستانی بن کر تبادلہ خیال کرتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم میں اس قدر سیاسی بلوغت آگئی ہے کہ ہم قومی معاملات پر سیاست سے بالاتر ہوکر سوچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ اے پی سی اور سانحہ پشاور کو گڈ مڈ  نہ کیا جائے ، ہمیں اس ملک کو ایسے لوگوں سے پاک کرنا ہے۔ اس واقعے کی ذمہ داری ایک گروپ نے قبول کی ہے لیکن وہ مشکوک ہے کیونکہ ذمہ داری قبول کرنے والا گروپ یہاں فعال نہیں۔ اس کے باوجود وہ یقین دلاتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث افراد کا پیچھا کیا جائے گا اور اللہ کو مننظور ہوا تو ان کو مقام عبرت تک پہنچائیں گے، اس کے علاوہ ہماری سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تمام تر پیش رفت سے ایوان کو بھی بھی آگاہ کریں گے

Pages - Menu